اسلام میں ہر اس بات کی حوصلہ افزائی ہے جس کے ذریہ بہترین و صحت مند معاشرہ تشکیل پائے ان باتوں میں کھیل کود بھی ہے۔ جس کے ذریع صحت بنائی جائے یا جو کھیل ذہنی تربیت کا ذریعہ ہو اس شرط کے ساتھ کہ حدود شرع سے اس کا ٹکراو نہ ہو- وہ کھیل کود جوجسمانی صحت کو فائدہ نہ پہنچائے بلکہ نقصان پہنچائے وہ کار فضول ہے جیسے ٹی وی پر میچ دیکھنے کے شوق میں اپنے فرائض سے غفلت برتنا اور اس مسلسل مصروفیات میں اپنی صحت اور اپنا وقت برباد کرنا، فی الوقت یہ وبا بچوں بوڑھوں اور جوانوں میں یکساں پائی جا رہی ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے ”من اشتغل بالفضول فاته من مهمة المامول”
جو شخص فضول کاموں میں لگا رہے گا وہ زندگی کی واقعی مہم کو سر کرنے میں نا کامیاب رہے گا۔ (غرر الحکم 669)
اسی طرح عورتوں کا حجاب سے آزاد ہو کر کھیل کے میدان میں کود پڑنا شریعت سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔ بلکہ بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ کھیل کے میدان میں جب خواتین قدم رکھتی ہیں تو عریانیت کو فروغ ملتا ہے-
محترمہ عزیزہ رضوی نے اپنے کتابچے “اسلام اور اسپورٹس” کے ذریعے اس بات پر بھی بجا زور دیا ہے کہ اسلام کھیل کود کا مخالف نہیں اور ساتھ میں اس کے بھی شواہد پیش کر دیے ہیں کہ اس موضوع پر اسلام کا نظریہ کیا ہے- اور کس کس کھیل کو کس حد تک وہ درست سمجھتا ہے- بالخصوص خواتین کس دائرے کے اندر اس کھیل کود کے میدان میں اتر سکتی ہیں- اس موضوع پر قلم اٹھا کر میں نے قدم اٹھایا ہے-
Reviews
There are no reviews yet.